وہ جوقاتل ہے
Qatil: لوگوں کا مجمع تھا، بہت سے لوگ چبوترے کے ارد گرد پوال پر خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے جیسے …
Qatil: لوگوں کا مجمع تھا، بہت سے لوگ چبوترے کے ارد گرد پوال پر خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے جیسے …
بھیک دینے سے غریبی ختم نہیں ہوتی | MuShtaq Ahmad Noori بھیک دینے سے غریبی ختم نہیں ہوتی “ہم نے دو …
کہتے ہیں کہ اسکول “شکچھا کا مندر” ہوتاہے اور ٹیچرس اس شکچھا کے مندر کے محافظ اور رکھوالے ہوتے ہیں جو …
شیشہ کے مانند شفاف پانی میں تیرتی مچھلیاں، خوشیاں مناتے رنگ برنگ پرندے، ندی کنارے اپنے بدن کو سکھاتا اور سورج کی تپش کھاتا مگرمچھ جیسے کوئی ولایتی سیاح ساحل سمندر کا لطف اٹھا رہا ہو، دور سے ٹرین کی آتی ہوئی آواز سنتے ہی نیلیش کی آنکھوں میں چمک اترآئی، اپنی ٹیوب کو گھسیٹتا ہوا ندی میں لایا اور ایک مخصوص مقام پر رک کر اوپر برج کی جانب دیکھنے لگا،بیابان سے چنگھاڑتی ہوئی ٹرین جب پل سے گزری تو عقیدت مندوں نے ندی میں سکے اچھال کر مرادیں مانگیں، نیلیش نے تقریبا ایک گز کی مضبوط لکڑی پانی میں پھینکا جس میں جابجا مقناطیس لگا رکھا تھا اور ٹیوب کے سہارے ندی کے اِس پار سے اُس پار چلاگیا پھر اس لکڑی کو اس میں لگی رسی کی مدد سے کھینچ کر باہر نکالا اور اس میں چپکے سکوں کو ہتھیلی میں لئے مسرور ہوکرغور سے دیکھنے لگا، سورج کی ایک بھٹکتی ہوئی کرن سکوں میں سماگئی جس کی چمک میں بیمار ماں کا عکس نظر آنے لگا، جلدیسے ٹیوب کی ہوا نکال کر جھولا میں ڈالا اور پیٹھ پر لاد کر گھر کی طرف چلتا بنا۔ لاک ڈاؤن نے حیات انسانی کی رمق چھین کر اسے منجمد کردیا تھا، جو جہاں تھا وہیں سانسیں تھامے رہ گیا، آج صبح سے ابھی تک کوئی ٹرین نہیں آئی تھی، آتی جاتی لہروں کی طرح بے چین نیلیش کبھی یہاں جاتا تو کبھی وہاں، بالآخر اس نے ٹیوب کو مرتفع ریت کے سائے میں رکھ کر ٹرین کو کان پکڑ کر کھینچ لانے کو سرپٹ دوڑنے لگا، شیطان کی آنت کی طرح یہ ٹریک کبھی نہ ختم ہونےوالی ڈور، سناٹے کو چیرتا ہوا خود کے قدموں کا شور، دور اسٹیشن سے پکارتا ہوا خاموشیوں کا جھونکا، کوئی نہیں؟ آخر ماجرا کیاہے؟ نیلیش نے چپی کی گردن پر لات رکھ کر اسٹیشن کے باہر جھانکا، ایک شہتوت کے پیڑ کے نیچے کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ مثل حباب حیات بشر ہے، یہ باغ ارض و سما ہی لپیٹ لیا جائے گا، اپنے علم و سائنس پر اترانے والے اور قدرت کو چیلینج کرنے والےانسان کو رب کی جانب سے یہ ایک تنبیہ ہے۔ امریکہ جیسے شیطان کے لئے درس عبرت ہے، لاکھوں انسانوں کے خون میں سَنی فلکبوس عمارات پر نازاں تھا کہ خدائے ذوالجلال نے اسے معمولی پراسرار مرض سے گھٹنوں کے بل لادیا۔ایک شخص نے کہا تبھی دوسرے شخص نے کہا کلیوگ ہے سنسار میں جب بھی پاپ کا اَستر بڑھ جاتا ہے تو مہادیو کرودھت ہوکر مانو جاتی کو مانوتا کاپاٹھ پھر سے پڑھنے کو پریکشا لیتے ہیں تا کہ وندنا کی جیوتی جلتی رہے، بھولے ناتھ کی کرپا ہوگی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کیا خاک ٹھیک ہو جائے گا تمام مذاہب کی قلعی کھل گئی آج تمام عبادت خانے، دیر و حرم سنسان پڑے ہیں تمام مشکل کشا دبکیلگائے سوئے ہیں۔ تیسرے شخص نے کہا اور سگریٹ کی لمبی کش لیکر فضا میں دھواں لہرایا اور بحث کو مزید طول دیتے ہوئے کہا ویسے مجھے کورونا پھیلنے کی دو صورت لگتی ہے یا تو چین ووہان میں بایولوجیکل ہتھیار بنا رہاتھا تو وائرس لیک ہوا یا امریکی فوجنے ووہان میں مشترکہ فوجی مشق کے دوران چینی لوگوں میں جان بوجھ کر کورونا پھیلایا ہے، جو بھی ہو یہ ایک بڑی سازش لگتی ہے۔ نیلیش کو کچھ نہیں سمجھ میں آرہا تھا یہ لوگ کون ہیں! اور کس دنیا کی باتیں کررہے ہیں! وہ الٹا واپس گھر کی طرف لوٹ گیا۔ ضیق تنفس کا ضرب، جیسے وہ سانس کو دونوں ہاتھوں سے کھینچ کر زبردستی اپنے جسم میں پہونچا رہی ہو، بیٹا مجھ سے دور رہورنہ تم کو بھی ہو جائے گا۔ ندیا سے دھارا کو کون الگ کرسکتا ہے، اپنے ہی سایہ سے کوئی کیسے جدا ہوسکتا ہے، نیلیش روتے ہوئےماں سے لپٹ گیا، شوبھ شوبھ بول ماں، ترے بن میرا کون ہے۔ دوڑ زندگی کی دوڑ، دھوپ اور چھاؤں کی دوڑ، پیاس کی پانی کو دوڑ، سنجیونی بوٹی کی تلاش، انتھک کوشش، بیدھ جی میری ماں کو سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے کھانسی بھی بہت ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر کی آنکھوں میں خوف و ترحم کی ایک لہر آکر گزر گئی، دوالے کر دروازہ پر قدم رکھتے ہی کھانسی کی آواز تھم گئی تھی، روح اپنے عارضی جسم کو چھوڑ کر سانس کی تلاش میں سرگرداںتھی، ماں کے جسم کو جھنجھوڑا، لیکن آواز نے سکوت کا روزہ رکھ لیا تھا۔ منت سماجت بھیا، چاچا، ہر ایک کا بس ایک ہی جواب،دور رہو مجھ سے اس کا انتم سنسکار نہیں ہوسکتا۔ ٹیوب پر ماں کو اس طرح لٹا دیا کہ تقریبا وہ اس میں سما گئی، ریتیلی زمین پر رسی کے سہارے گھسیٹتا ہوا بیہڑ میں لے آیا،سانسیں اکھڑنے لگی تھی، دنیا گھومتی نظر آنے لگی تھی، سر پکڑ کر بیٹھ گیا، مطلق خاموشی، صرف ندی کنارے سے نیل کنٹھ کیآواز آرہی تھی گویا وہ بھی شریک غم ہو، نم آنکھوں سے ماں کو اس قدرتی نشیب و فراز کے حوالے کرکے سامنے ہی تقریبا تیس قدم …