اس کو سکوں جہاں میں کسی دم نہیں ملا
جس کا در حبیب پہ سر خم نہیں ملا
سمجھو کہ کل جہان اندھیرے میں ہے، اگر
عکس جمال نور مجسم نہیں ملا
لفظوں میں اس کو کیسے بیاں میں کروں حضور
جتنا ملا ہے آپ سے وہ کم نہیں ملا
منزل کی اور نام محمد لیے بڑھا
پھر کیسے بولوں راستہ پیہم نہیں ملا
لے آؤ خاک کوئے نبی، مل دو، زائرو
کیوں کہ ہمارے زخم کا مرہم نہیں ملا
فارح! دیار نور کو دیکھ آتے اب تلک
لیکن تمھارا عزم مصمم نہیں ملا
از ۔ فارح مظفرپوری
Faareh Muzaffarpuri