کہتے ہیں کہ اسکول “شکچھا کا مندر” ہوتاہے اور ٹیچرس اس شکچھا کے مندر کے محافظ اور رکھوالے ہوتے ہیں جو ہمیشہ ہی سے بلا تفریق مذہب و ملت طلباء کو انسانیت کا درس دیتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور جمہوریت کو تقویت دینے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں، تو اس لحاظ سے ایک استاذ اور معلم کا کردار نہایت ہی اہم ہو جاتا ہے جن میں طلباء کی تعلیم کے ساتھ ان کے کردار سازی کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن جب یہی معلم اور شکچھا کے مندر کے محافظ تعلیم کے بجائے طلباء کے مابین نفرت کے بیج بونے کی کوشش کریں گے تو طلباء معیاری تعلیم و تربیت کہاں سے حاصل کریں گے اور ملک کا مستقبل کس سمت گامزن ہوگا؟
جس طریقے سے مظفر نگر کے تھانہ منصور پور کے “نیہا پبلک اسکول” میں پہلی کلاس کے مسلم طالب علم “التمش” کو اس اسکول کی پرنسپل “ترپتا تیاگی” نے ہندو طلباء کو ایک ایک کر کے تھپڑ مارنے کا حکم دیتے ہوئے مسلم دشمنی کا کھلا ثبوت دیا وہ ایک ٹیچر کو کسی طرح زیب نہیں دیتا جس کی مذمت پورا ملک کر رہا ہے، لیکن کیا صرف مذمت کرنے، Condemn جیسے لفظ کا استعمال کر دینے اور ترپتا تیاگی کا میڈیا کے سامنے معافی مانگ لینے سے اس کا جرم ختم ہو جائے گا ؟ نہیں بالکل نہیں، بلکہ حکومت تبصرہ بازی کے بجائے ملزم پرنسپل کو بر طرف کرتے ہوئے سلاخوں کے پیچھے ڈالے، اگر ایسا نہ ہوا تو اس جیسا خبیث ذہن رکھنے والا دوسرا رہزن ٹیچر اس مذموم سلسلے کو آگے بڑھائے گا۔ اس لئے وقت رہتے بندھ کا باندھنا بےحد ضروری ہے اور اس کار خیر میں ملک کے ہر شہری کی شراکت ہونی چاہئے۔
دوسری اہم بات۔
قوم مسلم کے دانشوروں اور سرمایہ داروں کو خواب غفلت سے بیدار ہونے کی سخت ضرورت ہے، کہ وہ اپنے سوجھ بوجھ اور پونجی کو وقت کی اہم ضرورت سمجھ کر اپنی قوم اور آنے والی نسلوں کی آبیاری کے لئے مدارس کے قیام کے ساتھ ہی اسکول، کالج، اور یونیورسیٹی کے قیام کی بھی فکر کریں تاکہ کوئی اور التمش یا مسکان آر ایس ایس اور ہندوتوا کا شکار نہ ہو جائے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
محمد ناظر حسین مصباحی
مقیم حال۔حیدرآباد
عمدہ لاجواب
Thank u sir!