شیشہ کے مانند شفاف پانی میں تیرتی مچھلیاں، خوشیاں مناتے رنگ برنگ پرندے، ندی کنارے اپنے بدن کو سکھاتا اور سورج کی تپش کھاتا مگرمچھ جیسے کوئی ولایتی سیاح ساحل سمندر کا لطف اٹھا رہا ہو، دور سے ٹرین کی آتی ہوئی آواز سنتے ہی نیلیش کی آنکھوں میں چمک اترآئی، اپنی ٹیوب کو گھسیٹتا ہوا ندی میں لایا اور ایک مخصوص مقام پر رک کر اوپر برج کی جانب دیکھنے لگا،بیابان سے چنگھاڑتی ہوئی ٹرین جب پل سے گزری تو عقیدت مندوں نے ندی میں سکے اچھال کر مرادیں مانگیں، نیلیش نے تقریبا ایک گز کی مضبوط لکڑی پانی میں پھینکا جس میں جابجا مقناطیس لگا رکھا تھا اور ٹیوب کے سہارے ندی کے اِس پار سے اُس پار چلاگیا پھر اس لکڑی کو اس میں لگی رسی کی مدد سے کھینچ کر باہر نکالا اور اس میں چپکے سکوں کو ہتھیلی میں لئے مسرور ہوکرغور سے دیکھنے لگا، سورج کی ایک بھٹکتی ہوئی کرن سکوں میں سماگئی جس کی چمک میں بیمار ماں کا عکس نظر آنے لگا، جلدیسے ٹیوب کی ہوا نکال کر جھولا میں ڈالا اور پیٹھ پر لاد کر گھر کی طرف چلتا بنا۔
لاک ڈاؤن نے حیات انسانی کی رمق چھین کر اسے منجمد کردیا تھا، جو جہاں تھا وہیں سانسیں تھامے رہ گیا، آج صبح سے ابھی تک کوئی ٹرین نہیں آئی تھی، آتی جاتی لہروں کی طرح بے چین نیلیش کبھی یہاں جاتا تو کبھی وہاں، بالآخر اس نے ٹیوب کو مرتفع ریت کے سائے میں رکھ کر ٹرین کو کان پکڑ کر کھینچ لانے کو سرپٹ دوڑنے لگا، شیطان کی آنت کی طرح یہ ٹریک کبھی نہ ختم ہونےوالی ڈور، سناٹے کو چیرتا ہوا خود کے قدموں کا شور، دور اسٹیشن سے پکارتا ہوا خاموشیوں کا جھونکا، کوئی نہیں؟ آخر ماجرا کیاہے؟
نیلیش نے چپی کی گردن پر لات رکھ کر اسٹیشن کے باہر جھانکا، ایک شہتوت کے پیڑ کے نیچے کچھ لوگ بیٹھے تھے۔
مثل حباب حیات بشر ہے، یہ باغ ارض و سما ہی لپیٹ لیا جائے گا، اپنے علم و سائنس پر اترانے والے اور قدرت کو چیلینج کرنے والےانسان کو رب کی جانب سے یہ ایک تنبیہ ہے۔ امریکہ جیسے شیطان کے لئے درس عبرت ہے، لاکھوں انسانوں کے خون میں سَنی فلکبوس عمارات پر نازاں تھا کہ خدائے ذوالجلال نے اسے معمولی پراسرار مرض سے گھٹنوں کے بل لادیا۔ایک شخص نے کہا
تبھی دوسرے شخص نے کہا کلیوگ ہے سنسار میں جب بھی پاپ کا اَستر بڑھ جاتا ہے تو مہادیو کرودھت ہوکر مانو جاتی کو مانوتا کاپاٹھ پھر سے پڑھنے کو پریکشا لیتے ہیں تا کہ وندنا کی جیوتی جلتی رہے، بھولے ناتھ کی کرپا ہوگی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
کیا خاک ٹھیک ہو جائے گا تمام مذاہب کی قلعی کھل گئی آج تمام عبادت خانے، دیر و حرم سنسان پڑے ہیں تمام مشکل کشا دبکیلگائے سوئے ہیں۔ تیسرے شخص نے کہا اور سگریٹ کی لمبی کش لیکر فضا میں دھواں لہرایا اور بحث کو مزید طول دیتے ہوئے کہا
ویسے مجھے کورونا پھیلنے کی دو صورت لگتی ہے یا تو چین ووہان میں بایولوجیکل ہتھیار بنا رہاتھا تو وائرس لیک ہوا یا امریکی فوجنے ووہان میں مشترکہ فوجی مشق کے دوران چینی لوگوں میں جان بوجھ کر کورونا پھیلایا ہے، جو بھی ہو یہ ایک بڑی سازش لگتی ہے۔
نیلیش کو کچھ نہیں سمجھ میں آرہا تھا یہ لوگ کون ہیں! اور کس دنیا کی باتیں کررہے ہیں! وہ الٹا واپس گھر کی طرف لوٹ گیا۔
ضیق تنفس کا ضرب، جیسے وہ سانس کو دونوں ہاتھوں سے کھینچ کر زبردستی اپنے جسم میں پہونچا رہی ہو، بیٹا مجھ سے دور رہورنہ تم کو بھی ہو جائے گا۔ ندیا سے دھارا کو کون الگ کرسکتا ہے، اپنے ہی سایہ سے کوئی کیسے جدا ہوسکتا ہے، نیلیش روتے ہوئےماں سے لپٹ گیا، شوبھ شوبھ بول ماں، ترے بن میرا کون ہے۔
دوڑ زندگی کی دوڑ، دھوپ اور چھاؤں کی دوڑ، پیاس کی پانی کو دوڑ، سنجیونی بوٹی کی تلاش، انتھک کوشش، بیدھ جی میری ماں کو سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے کھانسی بھی بہت ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر کی آنکھوں میں خوف و ترحم کی ایک لہر آکر گزر گئی، دوالے کر دروازہ پر قدم رکھتے ہی کھانسی کی آواز تھم گئی تھی، روح اپنے عارضی جسم کو چھوڑ کر سانس کی تلاش میں سرگرداںتھی، ماں کے جسم کو جھنجھوڑا، لیکن آواز نے سکوت کا روزہ رکھ لیا تھا۔ منت سماجت بھیا، چاچا، ہر ایک کا بس ایک ہی جواب،دور رہو مجھ سے اس کا انتم سنسکار نہیں ہوسکتا۔
ٹیوب پر ماں کو اس طرح لٹا دیا کہ تقریبا وہ اس میں سما گئی، ریتیلی زمین پر رسی کے سہارے گھسیٹتا ہوا بیہڑ میں لے آیا،سانسیں اکھڑنے لگی تھی، دنیا گھومتی نظر آنے لگی تھی، سر پکڑ کر بیٹھ گیا، مطلق خاموشی، صرف ندی کنارے سے نیل کنٹھ کیآواز آرہی تھی گویا وہ بھی شریک غم ہو، نم آنکھوں سے ماں کو اس قدرتی نشیب و فراز کے حوالے کرکے سامنے ہی تقریبا تیس قدم کے فاصلہ پر ایک اونچا مٹی کا ٹیلہ تھا، جس میں غار نما خالی جگہ تھی، وہاں سے بیٹھ کر ماں کی قبر کو اداس آنکھوں سےدیکھنے لگا، پھر دیکھتے دیکھتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ پرندے اپنے آشیانوں کی طرف رواں دواں تھے، شفق کی گڑیا نیند کی تھپکیدے کر جا چکی تھی، کوئی ہتھوڑا سے اس کا سینہ کوٹ رہا تھا، اب سر کو نشانہ بنانے ہی والا تھا کہ وہ خواب سے بیدار ہوکر بیٹھ گیا، سانسیں زور زور سے چل رہی تھی رات کی چادر ابھی بھی تنی ہوئی تھی، باہر ہلکی بارش ہو رہی تھی، کوئی جانور قبر کھودرہا تھا، وہ خوفزدہ ہو گیا لیکن اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے اس نے زور سے ڈھیلا پھینکا یک لخت وہ جانور دہانہ کی جانب جست لگایا، خوف سے نیلیش کے منہ سے چیخ بلند ہوئی لیکن لاشعوری میں اس کے ہاتھ میں رکھا ڈنڈا جانور کی پیشانی پر لگا جس سےوہ دور جاکر گرا پھر اٹھتے ہی بھاگ کھڑا ہوا۔
صبح کی رینگتی ہوئی کرن جب دہانہ تک پہونچی تو نیلیش چوندھیا کر آنکھیں ملتا ہوا باہر نکلا، آکاش میں ست رنگی اندر دھنش کھلے ہوئے تھے، قبر کو جانور نے کئی جگہ سے کرید دیا تھا، نیلیش نے اس پر پھر سے مٹی ڈالی اور گاؤں کی طرف نکل پڑا، خاموشسنسان سڑکیں، بند دوکانیں، گھروں میں الو کا پہرہ، نہ آدمی نہ آدم زاد کس کے سامنے دست دراز کرے، بھوک نے جسم پر کمزوریکی ہلدی چڑھادی تھی، نقاہت نے پاؤں میں جانتا پہنا دیا تھا کہ تبھی اس کی نظر کچھ لوگوں پر پڑی جو ایک ظاہری طور پر بندچائے خانہ میں بیٹھے گرم سموسے اور جلیبی کھاتے ہوئے بحث کر رہے تھے، نیلیش نے پہچان لیا یہ وہی لوگ تھے جو اس دن اسٹیشن کے باہر عجب باتیں کررہے تھے۔
دیکھو سیاروں پر کمندیں ڈالنے والا انسان اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی پر گھمنڈ کرنے والے لوگ ایک معمولی وائرس کے سامنے خودکو کتنا حقیر اور بے بس محسوس کررہے ہیں کہ اپنے عزیز کی لاش سامنے پڑی ہے لیکن وہ اسے دفنا نہیں سکتا، کیا یہ تسلیم کرنےکو کافی نہیں کہ روز محشر باپ اپنے بیٹے سے، بیوی اپنے شوہر سے، بھائی اپنے بھائی سے بھاگے گا، نفسی نفسی کا عالم ہوگا۔پہلے شخص نے کہا
پرنتو ابھی ایک دوسرے سے بھاگنے کے بجائے مانوتا کی سہایتا کرنی چاہیے، ویسے تو پشو پکچھی بھی اپنا پیٹ پال لیتے ہیں مگرمنوشیہ ہی وہ پرانی ہے کہ سویم کے علاوہ انیہ جیو جنتو تتھا اس سرشٹی کی رکچھا کی چنتا کرتا ہے، ساتھ ہی بھگوان سے اپنارشتہ جوڑیں، وہ اوشیہ ہی ہماری کٹھن پرستیتھیوں کو دور کر دے گا۔ دوسرے شخص نے کہا۔
سب اندھی عقیدت ہے ورنہ وہ سڑکیں جو صبح و شام پررونق ہوا کرتی تھی آج ہو کا عالم ہے، دیوار گریہ خود گریہ کناں ہے، آتشکدہ بجھا بجھا سا ہے، مندروں کی گھنٹیاں گم صم اور کعبہ ویران ہے، بڑے بڑے آچاریہ و پروہت، جملہ احبار و ربیان، امام و مولیان،کلیسائ روم کے پادری و راہبان حبس خانگی کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔ تیسرے شخص نے کہا
تمہیں یہ جان کر آشچریہ ہوگا کہ اجین کے مہاکالیشور مندر کی ہر سندھیا کو پنچھی پریکرما کرتے ہیں، یہ بھگوان کی پرم شکتی نہیں توکیا ہے۔ دوسرے شخص نے کہا
تم نے شاید دیکھا نہیں بندش طواف کعبہ کے بعد سفید پرندوں نے خانہ خدا کا طواف کیا، یہی نظام ربانی اور اس کا اعجاز ہے۔ قلب و جگر تک کی پیوند کاری کردینے والا انسان آج ایک غیر مرئی وائرس کے سامنے بے دست و پا ہے اور نصرت الہی کا منتظر ہے۔ پہلےشخص نے کہا اور مچان سے اٹھ کر سڑک کی طرف ہاتھ دھونے لگا تبھی اس کی نظر نیلیش پر پڑی جو بقیہ چھوٹے ہوئے سموسےاور جلیبی کو للچائی نظروں سے تاک رہا تھا، اس نے اشاروں سے اسے قریب بلایا اور آواز دی شرما جی ذرا اس بچہ کو کچھ دےدیجیئے، شرماجی نے ایک بوسیدہ پیپر میں سامان لپیٹ کے بڑھایا ہی تھا کہ تیسرے شخص نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور جیبسے موبائل نکال کے شرماجی کو تھمادیا اور تینوں نے نیلیش کو تھوڑی دوری بناکر کھانے کی پیکٹ دیتے ہوئے تصویر کھنچوائی اورسوشل میڈیا کی زینت بنا دیا۔
حیات و جذبات کی کشمکش میں مدقوق، دن نکلتے ہی یقین و قنوط کی کچی ڈورتھامے نان و شبینہ کی آس لئے گاؤں کی دہلیز پرماتھا ٹیکنا پڑتا اور شام ڈھلتے ماں کی قبر کی جانب بیہڑ میں اس طرح واپس آتا جیسے وہ انتظار کر رہی ہوگی، جاتے ہی وہ اسسے لپٹ جائے گا، ماں سر پر ہاتھ پھیرے گی اور اپنے آنچل کی ہوا دے گی جس سے دن بھر کی تھکاوٹ دور ہوجائے گی۔
آج بہت دیر بعد وہ نیند سے بیدار ہوا تھا، دھوپ کی دبیز گرم چادر سے آتی سناٹے کی صدا، ٹیلہ کے چھاؤں میں بیٹھا پیاس سےخشک ہونٹوں پر ہاتھ پھیرا، اپنی ذات کی تنہائیوں میں کھویا آنکھوں کو تنگ کئے ناچتی ہوئی لُو دیکھ رہا تھا سامنے ہی وہ ٹریکتھی جس سے گذرتی ٹرینیں سکوں کی برسات کر دیتی تھی جن سے خوشیاں خریدا کرتا تھا، ٹرین نہ رکی گویا اس کے رگوں میںدوڑتا خون رک گیا ہو۔
سورج نے اپنی سوزش سے ہر ذی روح کی رطوبت چھین لی تھی، دھوپ کی پیلی ندی میں تیر کر جب نیلیش گاؤں پہونچا تو وہاں سڑکوں پر کوئی انسان نظر نہیں آیا، پردھان جی اسنیکس اور کافی لئے دالان والے کمرہ میں صوفہ پر بیٹھے مہابھارت کا ایپیسوڈدیکھ رہے تھے۔
نیلیش نے آواز لگائی سر جی بھوک لگی ہے۔
پردھان نے ریموٹ سے آواز کم کی اور زور سے گرجا بھاگ یہاں سے اور کسی وستو پر ہاتھ مت لگانا۔
نیلیش کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں وہ آگے بڑھ گیا، اب تو بھوک کی چادر بھی پھٹنے لگی تھی، لاچار و بے کس کی آہ و بے بسی نے پورےآکاش میں ہلچل پیدا کردیا تھا، اشوک سمراٹ جب بھوک سے تڑپتی اپنی رعایا کو اس طرح دیکھا تو دل کچوٹ کر رہ گیا، بیری کے پیڑپر بیٹھا کوا نے ہنس کر کھِلی اڑائی تو وکرمادتیہ سے رہا نہ گیا، وہ کوا کو مارنے دوڑا لیکن عیار کوا بیتال کی طرح اڑچکا تھا۔ تبھی نیلیش نے دیکھا پردھان کے گھر کے سامنے پھینکا ہوا کھانا کوا مزے لے کر کھارہا تھا، جیسے وہ کہ رہاہو آجا قابیل کو تدفین سکھایاتھا تم کو زیست سکھادوں۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا جلدی سے وہاں پہونچا اور اس طرح کھانے لگا جیسے صدیوں کا بھوکا ہو۔
تھکاوٹ کا نشہ پورے جسم پر چھا چکا تھا پتا نہیں کب آنکھ لگ گئی اور وہ سپن لوک کی نگری پہونچ گیا، چندرما کی مسکراہٹ بھری روشنی میں بانہیں پھیلائے ماں اپنی اُور بلارہی تھی، ممتا کے ساگر میں ڈبکی لگاتا ہوا پرلوک کی دہلیز پر قدم رکھا تو دیکھانور کی بوند ہے جس سے پھوٹتی روشنی پورے برہمانڈ کو روشن کررکھا ہے چھبیلی اپسرائیں پایل سنگ اپنی نرتیہ کلا سے ہر کسی کو مدھر مگن کر دیا ہے، وینا کی تان، سنتور کی من موہک دھونی، مردنگ و منجیرا سے برستا ہوا سُرترنگ اور بانسری کی دھن میں مدھیرا کی ہلکی ہلکی چسکی نے پرلوک واسیوں کو منترمگدھ کردیا ہے اسی بیچ ننھا بالک کہہ کر نہ جانے کس نے دھکا دیا کہ وہ لڑھکا اور ہواؤں کی جٹا تھامے آواز کی رفتار سے بھی تیز نیچے کی جانب گرتا جارہاتھا، تبھی کیلاش پربت سے آتی نرم ملایم بدرانے اس کے وجود کو بھگو دیا، اب وہ خلا کی تختی پر دوڑنے لگا تھا کہ اچانک ٹھٹھکا، اس گنجلک پہاڑوں کے درمیان اتنی طویل دیوار؟ ششدر کہ آخر کیوں اور کیسے؟ دیوار کے اس پار کیا ہے؟ پر رونق شہر، شہر سے نکلتے ہی گھنا جنگل پھر دھیرے دھیرے گھپ ہوتیاندھیری رات اماوس جیسی اور فضاؤں میں لپٹی ہوئی ہیبتناک خاموشی، دفعتا سمندر کی جانب سے چنگھاڑتا ہوا ہواؤں کا طوفانجس نے تار کے پیڑوں کو رکوع و سجود پر مجبور کردیا، پیڑوں پر لٹکے چمگادڑ ادھر ادھر اڑنے لگے اور قطار اندر قطار انواع و اقسام کے میوہ جات و خوشمزہ پھلوں کے اشجار کے گرد چکر کاٹ کر اس کے خوشے پر اپنی چھتری جمائی اور کھانے لگے، کچھ کھائےپھل زمین پر گر پڑے، ادھر ادھر دوڑتے پھرتے خوک نے گرے ہوئے پھل کو اپنی خوراک بنایا پھر ان جانوروں کا گوشت عالیشان ہوٹلوںمیں لوگوں کو پیش کیا گیا۔ پھر کیا تھا سب اپنی اپنی گردن پر ہاتھ رکھے کھانس رہے تھے، آنکھیں باہر کو آنے لگی تھی، اس پراسرار بیماری نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالم کو اپنے شکنجے میں دبوچ لیا تھا ویاکل آتماؤں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر عجوز و معذورماں باپ کو پیٹھ پر لادے کسی محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں در در بھٹک رہاتھا، مہاجرین اپنے بچوں کو کندھے پر لٹکائے دور درازاپنے کھنڈرزدہ گھروں کی طرف نکل پڑے تھے، یُگوں سے لمبی سڑکوں کو طے کرتے کرتے حاملہ عورتوں کا حمل ساقط ہوگیا تھا، مریضو مزدور اپنی سوکھی قسمت کو بھگو کر چبانے لگے تھے تبھی دیوہیکل پیکر کھڑا ہوکر بولا میں ہوں وقت! بس توقف ہی محض علاجہے۔ مانند تصویر ہر کوئی اپنی جگہ ساکت و جامد ہوجائے جس کو جو لمحہ ملا بس اسی کو صدیاں تصور کرو اور داستان پوری ہونےتک محصور خانہ رہوگے۔ سب نے اپنے اپنے حصے کا لمحہ نچوڑا تو آہ و بکا کی صدا ہر سو چھا گئی، بھوک و پیاس خود ہی نڈھال ہونے لگی، مجمع روتا ہوا فریاد کرتا رہا۔ عورتیں، بوڑھے، بچے، بلک بلک کر رو رہے تھے۔ ہند کی تمام ندیاں آنسؤوں سے لبالب ہوگئیتھیں لیکن وقت سنگ دل ہوچکا تھا، وہ اپنے پورے جاہ و حشمت کے ساتھ جھیل کنارے جھولا ڈالے قرنطینہ کی زندگی گزار نے چلا گیاتھا۔
مدت مدید کے بعد خلقت کی ضعفی دیکھ کر لاک ڈاؤن کی بیڑی کاٹ دی گئی تھی کوزہ جہانی سے نفوس رسنے لگے تھے، کاروبارگیتی حسب معمول ہونے لگے تھے، عیش و نشاط کی محفلیں اب سجنے لگی تھیں، رفت و آمد کی روایت قائم ہونے لگی تھی، ایک ٹرینپے در پے سیٹیوں کی آواز کے ساتھ ندی سے کچھ پہلے بیہڑ میں رکی، ایک خوبصورت دوشیزہ نے بیگ سے کیمرہ نکالا، اپنے سیلکی بالوں کو ایک جانب کرتے ہوئے کالا چشمہ نکال کر پہلے آنکھوں پر لگایا اور پھر اسے اپنی پیشانی کے اوپر رکھ کر ٹرین سے باہرآگئی باہر دھوپ بہت تیز تھی اسی لیے اس نے ٹرین کے سائے میں ہی کھڑی ہوکر زوم کرکے کچھ مناظر کیمرے میں قید کر لئے پھراچانک دور ٹیلے کے پاس اسے کچھ گدھ نظر آئے، ناہموار راستے کو طے کرتی ہوئی قریب پہونچی تو دیکھا ایک دس بارہ سال کا بچہسوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا تھا، چاروں اُور بیٹھے گدھ اسے نوچ کھانے کو اس کی موت کے منتظر تھے میڈم نے بہت ہی چابکدستی سے سارے مناظر کی ویڈیو بنائی۔
برقی قمقموں کی روشنی میں نہاتے وجیہ و خوبصورت لوگ، نورانی چہروں سے جھرتا مسکراہٹوں کا آبشار، ایک خوش وضع اناؤنسرنے سب سے پہلے پروردگار کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے بنی نوع انسان کو اس مہلک متعدی مرض سے نجات دی اور ساتھ ہی ان تمامانسانیت نواز بندوں کا شکریہ جو اس عالمگیر بحران اور مشکل گھڑی میں اپنی جان پر کھیل کر انسانیت کے علمبردار بنے پھر دیگرکٹیگریز کے علاوہ بیسٹ ڈاکیومنٹری فلم کا اعلان کیا گیا۔ پورا ہال تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا، چاروں طرف سے مبارکبادیاں،لوگوں کی میڈم کے ساتھ سیلفی لینے کی ہوڑ، ایوارڈ تقریب کے اختتام پر تملق پسندی بھرے سوالات اور بڑی چاؤ سے جواب دیتی میڈم، ایک ادھیڑ عمر صحافی نے بیسٹ ڈاکیومنٹری کی مبارکباد دی اور سوال کیا میڈم اس بچے کا کیا ہوا؟ سوال سنتے ہی میڈم کولگا جیسے منوں مٹی میں زندہ درگور کردیا گیا ہو اس کی سانسیں اٹکنے لگی، خشک حلق کو پانی سے تر کیا اور تھوڑا سنبھل کربولی میں نے قدم بڑھایا ہی تھا کہ ڈنٹھل میں ٹھیس لگنے سے گر گئی، ٹیوب پر بیٹھا گدھ نے خوفناک نظر ڈالی تھی، اکیلی لڑکی اورافعی سا منہ کھولے خوفناک بیہڑ، اُدھر ٹرین سیٹی بجا رہی تھی، اِدھر ہرپل موت کے قریب جاتا بچہ، ذہن میں لاکھوں سوال کودنےلگے تھے، دھیرے دھیرے ٹرین کھسکنے لگی تھی، میری ٹرین چھوٹ سکتی تھی جسے میں اس وحشتناک بیابان میں چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔