Contents
:دکن میں مرثیے کی روایت
اردو میں مرثیہ نگاری کی ابتدا دکن سے ہوئی، جہاں یہ صنفِ ادب صوفیائے کرام کی سرپرستی میں پروان چڑھی۔ اس روایت کی شروعات اشرف بیابانی کی تصنیف نوسرہار (1503ء) سے ہوتی ہے۔ وہ اپنی مجالس میں خود لکھے ہوئے مراثی پڑھا کرتے تھے۔ بعد ازاں، حضرت شاہ برہان الدین جانم، غواصی اور وجہی جیسے شعرا کے مراثی بھی ملتے ہیں، جو دکنی زبان میں تحریر کیے گئے ہیں۔
نصیرالدین ہاشمی کے مطابق، دکنی مرثیے کا بنیادی مقصد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیتِ رسالت کے غم کو تازہ کرنا اور ان کی یاد میں آنسو بہانا تھا۔ ان مراثی میں فرضی روایات یا افسانوی عناصر کو کم سے کم رکھا گیا اور ادبی شان برقرار رکھی گئی۔ ان میں واقعہ نگاری اور مرقعہ نگاری کے عناصر بھی نمایاں ہیں۔
:شمالی ہند میں مرثیہ نگاری
شمالی ہند میں مرثیہ نگاری کا آغاز روشن علی کی کتاب عاشورنامہ (1688ء) سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مسیح الزماں کے مطابق، اس دور کے ابتدائی مرثیہ نگاروں میں فضل علی فضل کا نام نمایاں ہے، جن کی تصنیف کربل کتھا میں شہدا کے حالات کو اشعار کی صورت میں پیش کیا گیا۔ اگرچہ یہ کتاب عمومی طور پر اردو نثر کے ارتقا کی مثال کے طور پر جانی جاتی ہے، تاہم اس میں مرثیہ گوئی کے ابتدائی رجحانات بھی ملتے ہیں۔ اس دور کے دیگر اہم مرثیہ نگاروں میں مسکین، محب، یکرنگ اور قائم کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
مرزا محمد رفیع سودا نے پہلی بار مرثیے کو مسدس کی ہیئت میں ڈھالا، جس کے بعد یہ ہیئت اردو مرثیے کا بنیادی قالب بن گئی۔ ان کے مراثی نہ صرف ہیئتی تجربات سے مزین تھے بلکہ ان میں ہندوستانی رسوم و رواج کی جھلک بھی ملتی ہے۔ ان کے کلیات میں 72 مراثی شامل ہیں۔
اسی عہد میں میر تقی میر نے بھی مرثیہ گوئی کی۔ انہوں نے اپنے مراثی میں معاشرتی عناصر اور سماجی رسوم و رواج کو شامل کر کے مرثیے کو ایک تہذیبی آئینہ بنایا۔ اس دور کے دیگر شعرا جیسے میر عبداللہ مسکین، میر ضاحک، میر حسن، میر شیر علی افسوس اور غلام ہمدانی مصحفی نے بھی مرثیہ نگاری میں اہم کردار ادا کیا۔
:لکھنؤ میں مرثیہ نگاری
لکھنؤ مرثیہ نگاری کا مرکز بن کر ابھرا۔ یہاں مرزا ظہور علی، راجہ کلیان سنگھ خلف، راجہ شتاب رائے اور مولانا محمد حسین محزوں جیسے شعرا نے مرثیہ گوئی کو فروغ دیا۔ اگرچہ لکھنؤ سے قبل بھی کئی علاقوں میں مرثیہ گوئی کی روایت موجود تھی، تاہم لکھنؤ میں اس صنف کو ادبی عروج حاصل ہوا۔
ڈاکٹر مسیح الزماں کے مطابق، مزرا پناہ علی بیگ افسردہ حیدرآبادی نے تمہید نگاری اور اشاروں کے ذریعے مرثیے میں حسن و ندرت پیدا کی، جو بعد کے مرثیہ نگاروں کے لیے ایک رہنما اصول ثابت ہوئے۔
:مرثیے کا دورِ تعمیر
انیسویں صدی کا آغاز اردو مرثیے کے “دورِ تعمیر” کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس دور میں امام باڑے اور عزاخانے تعمیر ہونے لگے، اور فضا میں “یا حسین” کی گونج سنائی دینے لگی۔ اس دور میں چھنو لعل دلگیر، مرزا جعفر علی فصیح، میر مستحسن خلیق اور میر مظفر حسین ضمیر جیسے شعرا نے مرثیے کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔
ان میں دلگیر کے مراثی قابل ذکر ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے مرثیوں میں سماج کی عکاسی کی ہے
جعفر علی فصیح کا نام بھی مرثیہ گوئی کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔
لیکن اس دور کے سب سے ممتاز اور مایہ ناز مرثیہ نگار مظفر حسین ضمیر ہیں، مصحفی نے انہیں نئی راہیں اور نئے راستے پیدا کرنے والا لکھا ہے، انہوں نے مرثیہ کو ہیت کے اعتبار سے با ضانطہ ایک صنف بنایا، مرثیے میں اجزائے ترکیبی کا یہ تعین بھی میر ضمیر نےہی کیا۔
:جدید اردو مرثیہ
بیسویں صدی میں اردو مرثیہ جدید فکری، ادبی اور موضوعاتی سطح پر ابھرا۔ جوش ملیح آبادی کو جدید مرثیہ کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے مراثی محض ماتم تک محدود نہیں بلکہ فکر و آگہی، تہذیب، اور انسانی اقدار کا گہرا شعور لیے ہوئے ہیں۔
اس دور میں آل رضا، جمیل مظہری، نجم آفندی، ڈاکٹر وحید، اور امید فاضلی جیسے شعرا نے مرثیے کو نئی جہت دی۔ انہوں نے مرثیے کو محض ایک مذہبی صنف سے نکال کر فکری اور تہذیبی بیانیہ بنا دیا۔
:اختتامیہ
اردو مرثیہ صرف ایک مذہبی صنف نہیں بلکہ ہماری تہذیبی، فکری اور ادبی روایت کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کا آغاز دکن سے ہوا، شمالی ہند میں فروغ پایا، لکھنؤ میں عروج حاصل کیا، اور بیسویں صدی میں جدید خیالات کے ساتھ ایک جامع صنف بن کر ابھرا۔ آج مرثیہ اردو ادب میں نہ صرف ایک زندہ روایت ہے بلکہ اس کے ذریعے ایک پوری تہذیب کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
:حوالہ جات / مآخذ
1 نصیر الدین ہاشمی،۔ دکن میں اردو.
2. جمیل جالبی۔ تاریخِ ادبِ اردو. جلد اول تا چہارم۔
4. ڈاکٹر مسیح الزماں۔ اردو مرثیے کا ارتقا
5
،ایم اے اردو (فاصلاتی تعلیم) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسیٹی