وہ جوقاتل ہے

By urduzakhira.com

Updated on:

لوگوں کا مجمع تھا، بہت سے لوگ چبوترے کے ارد گرد پوال پر خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے جیسے کسی کے منتظر ہوں, تبھی سامنے چبوترے پر ایک لحیم شحیم گھنی مونچھوں والا شخص جس کے سر پر عمدہ قسم کی پگڑی بندھی ہوئی تھی، نظر آیا، سب لوگ احتراما اٹھ کھڑے ہوئے ، یہ شخص وضع قطع سے گاؤں کا مکھیا ، یا کوئی اثر و رسوخ والا شخص معلوم ہور ہا تھا، اس نے لمبی سے ہونکار کے ساتھ لوگوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا

اس شخص کا نام رائے بہادر سنگھ تھا۔

کیا خبر ہے؟ کیا وہ یہاں موجود ہے؟ رائے بہادر سنگھ نے 

مجمع پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔

ہاں ہجور ! وہ یہیں موجود ہے مگر صدمے سے اب بھی نکلی

نہیں ہے ،لاکھ روکنے کے باوجود بھی یہاں آپہنچی ہے ۔ ایک معمر شخص نے کہا ، جس کے چہرے پر غموں کا سایہ صاف نظر آ رہا تھا۔

کیا یہاں کوئی ایسا شخص موجود ہے، جو اس متاثرہ کے“

بابت کچھ بتا سکے “۔

 ہجور یہاں ایسا کوئی بھی آدمی نا ہی ہے، پر بابو رام کہہ”

“رہے تھے کہ بھوشن نے کچھ دیکھا سنا ہے۔

کچھ ناہی مائی باپ” یہ بھی ایک معمر شخص ہی تھا۔ کچھ نہیں کا کیا مطلب ہے؟ کیا تم نے بابورام کی بات نہیں سنی۔

مائی باپ بات اتنی سی ہے کہ ہم کھیتی سے آرہے تھے کہ

اچانک کھیت کے ایک بڑے میڑھ کے نیچے کسی کو پڑے دیکھا جب پاس کا جا کر دیکھا تو یہ رام کر پال کی چھوٹی لڑکی چمپا تھی جو بے ہوش پڑی تھی ، منھ سے خون بہہ رہا تھا ، مائی باپ ، دیکھ کر ہمرے تو ہوش ہی اڑ گئے تھے، پھر ہم تیزی سے گاؤں کی طرف بھاگے بھاگے آئے۔ 

    عجیب معاملہ ہے رائے بہادر سنگھ نے کہنا شروع کیا۔ ہم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اس حادثے کے تعلق سے کچھ بتا سکے اور ایک متاثرہ لڑکی ہے جو بولنے سے قاصر ہے کیا الجھاوا ہے، پر کوئی بات نہیں، مجرم کو پکڑنے میں ہم پیچھے ہٹے ہیں نہ ہٹیں گے ، اس بار بھی پچھلے مفرور مجرموں کی طرح اسے بھی ہم ڈھونڈ نکالیں گے، البتہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دوبارہ انہیں مفرور مجرموں کا بھی اس جرم میں ہاتھ ہو، خیر، دیکھا جائے گا جو بھی اس جرم کے پیچھے ہے وہ ہماری گرفت سے دور نہیں ہوگا۔

گاؤں لکھیم پور کے باشندوں پر غموں کا سایہ کیے ہوئے تھا، ہر کوئی اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کے متعلق سے سوچ رہا تھا، لوگ حیران و پریشان تھے، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں، اس بار بھی سب کی امیدیں گاؤں کے مکھیا رائے بہادر سنگھ سے وابستہ تھیں۔ اس گاؤں کی بدنصیبی یہ تھی کہ کم از کم سال میں ایک دو بار نوجوان لڑکیوں کی گمشدگی کا معاملہ ضرور پیش آتا ، اس سے قبل گاؤں کے ہی کچھ نو جوان شک کی بنیاد پر پکڑے گئے تھے اور پھر ان لوگوں کے گاؤں چھوڑ کر بھاگ جانے پر رہی سہی کثر بھی پوری ہوگئی۔

ہنوز گاؤں کے مکھیا کی بات جاری تھی کہ اچانک مجمع کے ایک کونے سے چیخ و پکار کی آوازیں زوروں سے آنے لگی۔ پورے مجمعے کی نگاہ اس طرف اٹھ گئی، دیکھا کہ رام کرپال کی گونگی لڑ کی چمپیازور زور سے چیخے جارہی ہے جیسے اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہوگئی ہو ایسی ہذیانی کیفیت جسے لوگ پاگل پن کے دورے سے تعبیر کرتے ہیں ،

وہ ہاتھ کے اشارے سے کچھ بنانے کی کوشش کر رہی تھی ، اس کے منھ سے صورت لایعنی کا انبار ہواکے جھونکوں کے ساتھ نکلتا، جس میں شاید کوئی خاص معنی مضمر تھا، جسے لوگ گہرے صدمے سے تعبیر کر رہے تھے، اسے گھر کی طرف لے جایا جانے لگا مگر وہ وہاں سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی، پھر وہ و ہیں ایک دم سے بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارنے کے ساتھ ساتھ بالوں اور کپڑوں کو زور زور سے نوچنے لگی ، اور اسی کیفیت میں بھرے مجمع کی طرف بے معنی الفاظ میں کچھ اشارے بھی کئے جارہی تھی مگر لوگ ان بے معنی لفظوں کے اندر پوشیدہ اشاروں کو سمجھ نہ سکے اور اسے اٹھا کر اسی حالت میں گھر لے گئے۔

      تقریبا رات کے پونے دو بج رہے تھے، گاؤں پر مکمل خاموشی طاری تھی البتہ رام کر پال کے صحن میں ایک روشنی ہوا کے ہلکے جھونکوں سے لڑ رہی تھی ، اچانک روشنی گل ہوگئی ، اور اس کے ساتھ ہی اس تار یک فضا میں ایک چیخ بھی ابھری جسے پوری قوت سے دوسروں تک پہنچنے سے روکا جار ہا تھا۔ 

  احمق لڑکی آج تجھے تیری موت بھی نہ بچا سکے گی، اگر خاموش رہتی تو شاید جان کی امان پاتی ، اس دن تیری قسمت اچھی تھی کہ وہاں بھوشن آپہنچا تھا مگر آج نہیں بچے گی ، اگر تو نے خود پر رحم کیا ہوتا تو آج تیری یہ حالت نہ ہوتی ۔ کمبخت لڑکی آج تک کوئی بھی شخص میرے راز پر سے پردہ نہ اٹھا سکا، پھر تیری کیا اوقات ہے میرے سامنے ، تو میرے بارے میں کچھ نہیں جانتی ۔ چمپا مجبور ولا چار اس شخص کے سامنے فرش پر پڑی ہوئی تھی، چمپا کی آنکھیں خوف و ہراس کے بجائے سرخ ہورہی تھیں جس میں غصے کے آثار صاف نظر آرہے تھے، اس کے منھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی مگر خاموش احتجاج جاری تھا۔ اچانک پورا کمرہ آگ کی لپیٹ میں آگیا،

وہ شخص دروازے کی طرف جھپٹا مگر کوشش ناکام رہی کیونکہ دروازہ باہر سے بند تھا وہ اسی بوکھلاہٹ میں پیچھے کی طرف ہٹا مگر اچانک آگ سے لپٹا ہوا لکڑی کا ایک بڑا سا ٹکڑا اس شخص کے سر پر گرا، اور وہ وہیں چمپا کے ایک طرف ڈھیر ہو گیا، لوگ آگ دیکھ کر دوڑے آئے اور اس کو بجھانے کی ترکیبیں کرنے لگے، لگ بھگ آدھے گھنٹے بعد آگ پر قابو پالیا گیا، کچھ لوگ کمرے میں داخل ہوئے مگر سامنے نظر پڑتے ہی ان کے منھ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ سامنے چمپا اور گاؤں کے مکھیا رائے بہادر سنگھ کی سوختہ لاش پڑی تھی ، جس کے دائیں ہاتھ میں ایک بڑا سا خنجر چمک رہا تھا۔ آگ کیسے لگی یہ کبھی پتہ نہ چل سکا۔

Ahmad Raza

BPSC Teacher, Bihar

Leave a Comment