مرثیہ، عربی کے لفظ ’’رثا‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے کسی متوفی کو رونا اور اس کی خوبیوں کا تذکرہ کرنا۔ دوسرے لفظوں میں، کسی مرنے والے کے لیے گریہ اور اس کی صفات کا بیان ’’مرثیہ‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ صنفِ ادب ابتدا میں عربی زبان میں رائج تھی، جو بعد میں فارسی کے راستے اردو میں داخل ہوئی۔ اگرچہ اردو اور فارسی میں مرثیہ زیادہ تر اہلِ بیت اور واقعۂ کربلا سے مخصوص رہا ہے، لیکن اس کے دائرے میں دیگر عظیم شخصیات کی مرثیہ نگاری بھی شامل ہے۔
مرثیہ کے اجزائے ترکیبی (اجزاءِ مرثیہ) سے مراد وہ بنیادی عناصر ہیں جن سے مل کر ایک مکمل مرثیہ تشکیل پاتا ہے۔ اردو مرثیہ خصوصاً لکھنوی مکتبۂ فکر میں ایک باقاعدہ صنفِ ادب کے طور پر ترقی کر چکا ہے، اور اس کے مخصوص اجزائے ترکیبی درج ذیل ہیں ۔
مرثیے میں اجزائے ترکیبی کا یہ تعین استاد دبیر میر ضمیر نے کیا۔ لیکن اس کی پابندی پوری طرح نہ ہو سکی، خود ضمیر اور بعد میں انیس و دبیر کے یہاں بھیں اس کی پابندی نہ ہو سکی، مثلا مرزا سلامت علی دبیر کا ایک مشہور مرثیہ ہے”کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے” یہ مرثیہ آمد سے شروع ہوتا ہے۔
:مرثیہ کے کل آٹھ اجزائے ترکیبی ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں
(۴) آمد | (۳) رخصت | (۲) سراپا | (۱) چہرہ |
(۸) بین | (۷) شہادت | (۶) جنگ/رزم | (۵) رجز |
:چہرہ
یہیں سے مرثیے کی شروعات ہوتی ہے، مرثیے میں چہرہ قصیدہ کی تشبیب کی طرح ہوتا ہے، اس حصے میں تمہید کے طور پر ایسے مضامین ہوتے ہیں جن کا مرثیے کے ہیرو سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، اکثر مرثیوں کا آغاز حمد، نعت، منقبت، مناجات وغیرہ سے ہوا ہے۔
:سراپا
عموما یہ ایک طرح سےمرثیے میں مذکور بہادروں کا تعارف ہوتا ہے، جن بہادروں کے کارنامے بیان کئے جانے والے ہیں ان کا حلیہ مثلا شکل و صورت، رنگ روپ، وضع قطع، قدو قامت، اطواروخصائل اور شجاعت و بہادری وغیرہ) کا ذکر ہوتا ہے۔
:رخصت
مرثیے کا ہیرو اجازت لیتا ہے اور میدان میں جنگ کرنے کے لئے رخصت ہو جاتا ہے۔ میدان جنگ میں جانے کے لئے خیمہٗ حسین سے ایک بعد دیگرے جانباز بہادرجب سر پر کفن باندھ کر نکلتے ہیں تو خیمے میں موجود متعلقین یہ جانتے ہوئے بھی رخصت کر دیتے ہیں کہ اب یہ زندہ واپس نہیں آئیں گے۔
:آمد
ہیرو کا میدان جنگ میں پہونچنے سے متعلق اشعار ہوتے ہیں، ایسے موقعوں پر شاعر یہ دکھانا چاہتا ہے کہ کسی بہادر کے میدان جنگ میں پہونچنے سے کس طرح دشمن کی فوج میں خوف و ہراس پھیل جاتا ہے۔
:رجز
اس جز میں مرثیے کا ہیرو اپنے دشمن اور مدمقابل فوج سےاپنے ٓاباواجداد کے کارنامے اور اپنی شجاعت و بہادری کو فخریہ انداز میں بیان کرتا ہے, جس میں جوش و غضب اور ولولہ ہوتا تھا، اس حصے میں تقریبا تمام مرثیہ نگاروں نے فصاحت و بلاغت سے کام لیا ہے۔
:جنگ/رزم
یہ مرثیے کا نہایت ہی اہم حصہ ہوتا ہے جس میں شاعر میدان جنگ کی تیاری، فوجوں کے سازو سامان گھوڑوں کی تعریف، تلواروں کی چمک، اور بے جگری سے لڑائی وغیرہ کا بیان اس خوبی سے کرتا ہے جس سے اس کی بلندئ خیال اور قوت اظہار کا پتہ چل سکے۔
:شہادت
مرثیے کا یہ حصہ بھی بہت جاندار ہوتا ہے کیونکہ اسی بیان پر بین کی شدت کا انحصار ہوتا ہے، مجاہد کا بہادری کے ساتھ جنگ کرتے کرتے دشمنوں کے نرغے میں گھر جانا، زخمی ہونا اور پھر آخر میں شہادت پانا وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے۔
:بین
یہ مرثیے کا آخری حصہ ہوتا ہے، جس میں مجاہد کی شہادت اور لاش کو خیمے میں لانے، اہل وعیال، عزیز و اقارب کے رنج و الم اور بین و بکا کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔ مرثیے کا یہ حصہ بہت پر اثر ہوتا ہے کیونکہ یہی در اصل مرثیے کا مقصد و منشا ہوتا ہے۔
حوالہ جات / مآخذ:
اردو مرثیہ نگاری: ام حانی اشرف
دوسرا پرچہ، مثنوی، مرثیہ اور نظم، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسیٹی